اسلامیان ہند کی جدوجہد آزادی کا سنگ میل

1
Pakistan freedom
خیبر سے راس کماری تک اسلامیان ہند کے اس نعرہ مستانہ کی گونج سنائی دے رہی ہے​
دھڑکتے دل ۔۔۔۔خود منزل کی طلب اور شوق منزل کا نظارہ بنے ہوئے تھے

۳۲ مارچ ۰۴۹۱ اسلامیان ہند کی قومی تاریخ کا روز سعید ہے، برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کا ایک اہم موڑ قائد اعظم محمد علی جناح کی نگاہ بلند سخن دلنواز قیادت میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا تعین کیا۔ ایک علیحدہ اسلامی مملکت جو مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ہوگی، جس میں مسلمان آزادی کیساتھ اپنی تہذیب تمدن اور اسلامی نظام کے تحت زندگی گزاریں گے.

قرارداد پاکستان کے دن سے سات سال کے مختصر عرصہ میں ایک آزاد ، خودمختار اسلامی مملکت کا قیام, مسلمانان برصغیر کے اتحاد اور قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت کاکرشمہ تھا۔

۳۲ مارچ قومی جشن کا دن ہے جسے ہر سال جذبہ تشکر کیساتھ منایا جاتا ہے یہ دن مسرت اور خوشی کا دن بھی ہے اور قومی اعمال کے محاسبے کا دن بھی ۔۔۔ضروری ہے کہ ہم خوشیوں کے اظہار کیساتھ ان مجاہدوں اور شہیدوں کو خراج تحسین پیش کریں جنہوں نے ظالم ،متعصب ہندووں کیخلاف ایک سو سالہ جدوجہد کرکے عزم پیہم کیساتھ بت خانہ ہند کے اندر ایک اسلامی جمہوری مملکت کے قیام کیلئے راہ ہموار کیا ۔

پروفیسر محمد اسحاق قریشی جن کا تعلق ریاست کشمیر سے ہے انہوں نے 23مارچ 1993کو اپنی ایک خصوصی تحریر میں لکھا کہ؛

“23 مارچ 1940 کی قرارداد کو گزرے اکاون برس ہوگئے مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ کل کی بات ہے اس سہ روز اجلاس کی تمام یادیں مری زندگی کی متاع عزیز ہیں۔”

ساتھ ہی23مارچ کی قرارداد کا خوبصورت نقشہ کھینچتے ہیں؛

“موسم بہار اپنے جوبن پہ تھا ، ہر سو ہر یالی اور پھول کھلے تھے ، خوشگوار موسم دلوں اور نگاہوں کو مخمور کر رہاتھا ۔ رنگین موسم۔۔۔۔ لاہور کا خوبصورت شہر، ۔منٹوپارک اور اس پر بادشاہی مسجد کے میناروں کا سایہ ایک آراستہ و پیراستہ پنڈال میں ہندوستان کے کونے کونے سے آیا ہوا اسلامیان ہند کا سمندر اپنے مستقبل کی تعمیر کررہا تھا۔ جلسہ گاہ خود اک پررونق شہر کا سماں پیش کررہی تھی۔ مسرت اور امید سے منور مسکراتے چہرے، روشن آنکھیں، دھڑکتے دل، ۔خود منزل کی طلب اور شوق منزل کا نظارہ بنے ہوئے تھے ۔ ان کے اور ان کی منزل کے درمیان ایک جست کا قافلہ باقی تھا۔ موسم بہار اور قرارداد پاکستان میری خوشگوار یادوں کی دو ہم رنگ تصویریں ہیں۔ جن کے نقوش لوح دل پر ہمیشہ تازہ اور زندہ رہیں گے۔”

یہ بات ہر شک سے پاک ہے کہ مسلمانان برصغیر نے صرف اسلام کے نام پر قرارداد منظور کی اور بالاخر لاکھوں جانیں دینے کے بعد پاکستان بنا اسلئے یہاں اس امر کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ بدقسمتی سے بعد نام نہاد دانشوروں کو جب اپنے وجود کے جواز کی ضرورت پڑی تو وہ تاریخی حقائق مسخ کرتے چلے گئے۔

تحریک پاکستان کے محرکات اور اسلامیان ہند کی بے مثال اور عظیم قربانی اور جدوجہد کو مسخ کرنے کی ناپاک کوششیں روز اول سے جاری ہیں۔ یہ ناپاک سازش اگر ہندو ذہن کی طرف سے ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ بھارتی استعمار نے ابھی تک تاریخی سچائیوں کو قبول نہیں کیا۔ دوقومی نظریہ آج بھی ان کی راتوں کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے اور پاکستان کا اسلامی تشخص آج بھی ان کیلئے سوہان روح بناہوا ہے۔

اس کے برعکس کچھ نام نہاد دانشور اور سیاست دان جو ایک طرف پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے محافظ دکھائی دیتے ہیں تو دوسری جانب وطن عزیز کی نظریاتی اساس پر خود ساختہ دانشوری کی دیمک بکھیرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

افسوس صد افسوس کہ یہ لوگ تحریک پاکستان کی مبادیات سے ہی واقف نہیں ۔ پس پردہ نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر قائد اعظم کے پاکستان کو دفن کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ ہم میں سے اکثر ان چہروں کو جانتے ہیں کہ جو تحریک پاکستان کے حقیقی مقاصد کو پس پشت ڈال کر اپنے ذاتی مفادات کے زیر اثر دوقومی نظریے کی من مانی تاویلیں کرنے کے سنگین جرم میں ملوث ہیں ، ہمارے بے حمیت نمائندوں کی مجرمانہ غفلت سے ان لوگوں نے ہمارے نصیب میں یہ بدقسمتی لکھ دی ہے کہ آج آدھی صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود پاکستانی سوال کرتا ہے کہ پاکستان کیوں بنا تھا ؟؟؟

دل کے کانوں سے سنئے! روح کے کانوں سے سنئے! بیدار آنکھوں سے مشاہدہ کیجئے! خیبر سے راس کماری تک اسلامیان ہند کے اس نعرہ مستانہ کی گونج سنائی دے رہی ہے جو ہر بچے، بوڑھے، جوان نے لگایا تھا۔۔۔

پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ 
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ 
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ ​

وطن عزیز کی فضائیں پھر سے ایک صدا سننے کو بے تاب ہیں، مسلمان کو پھر سے رشتہ مواخات میں جوڑنے کی ضرورت ہے قرارداد تکمیل پاکستان کی ضرورت ہے۔ دل چاہتا تھاکہ پکار پکار کہ ہرپاکستانی کو بتا دوں!

تیرا میرا رشتہ کیا لا الہ الا اللہ ​

یہ سعادت صرف پاکستان کو حاصل ہے کہ اس کی بنیاد عظیم کلمہ انقلاب پر رکھی گئی جس کا اقرار باللسان و تصدیق بالقلب کرکے ایک انسان کاروان اسلام میں داخل ہونے کا ببانگ دہل اعلان کرتا ہے۔ 

۳۲ مارچ تجدید عہد کا دن بھی ہے کہ ہم یکجا و یکجان ہوکر اس ملک کی خاطر ، پاکستان کی خاطر وطن عزیز کی سلامتی کیلئے، وہ قربانی دیں جو اس کے قومی وقار کا تقاضا ہو۔ ہم وطن عزیز کو قائد کا حقیقی پاکستان اور اقبال کے خواب کی عملی تعبیر بنادیں۔ 

عبیرہ فاطمہ

عبیرہ فاطمہ

تیزی سے بدلتی دنیا میں اپنے اصولوں پر قائم روح

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

SEDiNFO.NET ilmi Forum
Logo