سقراط کا مثالی استاد اور ہمارے اساتذہ

0
Socrates as teacher

سقراط ایتھنز کا رہنا والا تھا۔ وہ بزات خود ایک استاد تھا۔ اس نے اپنی زندگی کے پچاس سال پڑھانے میں صرف کیے اور اپنا ایک پرائیویٹ اسکول قائم کیا جس میں عملی طریقۂ تعلیم (Practically Oriented Education) کو رائج کیا۔

سقراط کا کہنا تھا کہ استاد کو بھرپور طریقے سے پڑھا لکھا اور تہذیب یافتہ ہونا چاہیئے۔ اگر ہم مذکورہ شرائط کے حوالے سے اپنے تعلیمی اداروں پر نظر دوڑائیں تو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ سقراط نے یہ شرائط ہمارے تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو دیکھ کر ہی لگائی ہیں۔ استاد کے لیے وسیع المطالعہ ہونے کی شرط کو لیجیے۔

 بہت ممکن ہے ہمارے اساتذہ جو مضمون پڑھا رہے ہوں اس کے لیے وہ ضروری بنیادی پیشہ وارانہ کوالیفیکیشن کو بھی نہ پورا کرتے ہوں۔

اکثریت اپنے مضمون کے بارے میں وسیع تر مطالعہ اور اس کے جدید ترین پہلوؤں کے علم سے عاری ہونگے۔ انھوں نے اپنے مضمون کے بارے میں “گائیڈوں” سے سکہ بند قسم کے نوٹس تیار کیے ہوتے ہیں یا انہیں اپنے کسی گزشتہ یا حالیہ ٹیچر ساتھی سے مستعار لیا ہوتا ہے یعنی انھوں نے ٹیکسٹ بک کو بھی کبھی پورا نہیں پڑھا ہوتا۔

“بھرپور اور مکمل طریقے سے پڑھے لکھے” سے مراد کہ استاد کو اپنے مضمون کے علاوہ زندگی اور کائنات کے بارے میں عمومی علم سے آگاہی حاصل ہو۔ اسے سائیکولوجی اور سوشیالوجی آف ایجوکیشن سے واقفیت ہو۔ گویا نہ صرف وہ خود پڑھنے لکھنے کے کلچر سے وابستہ ہو بلکہ طلباء کو بھی وسیع المطالعہ بننے کی راہ نمائی کرے۔

جب کہ معاملہ اس کے قطعی برعکس ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمارے ہاں بچوں کو اسکول لائبریری استعمال کرنے کی بھی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

ہمارے اسکولوں کے “Thoroughly Educated” اساتذہ کس طرح کے ہوتے ہیں، اس کی المناک مثال ملاحظہ ہو;

“میٹرک کا ایک طالب علم رپورٹ کرتا ہے کہ سائنس کا ایک ٹیچر توانائی (Energy) کے سبق کو پڑھاتے ہوئے کہنا لگا; ” آئن سٹائن کو اس بات کا پتا چلا ہماری آسمانی کتاب یعنی ہماری مذہبی کتاب سے اس وقت معلوم ہوا کہ مادہ (Mass) توانائی (Energy) میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جب اس نے ہماری مقدس مذہبی کتاب میں جنات کے بارے میں پڑھا. اور جنات کے علم کو جان کر ہی آئن سٹائن نے اپنی شہرہ آفاق ریاضیاتی مساوات E= Mc^2 تشکیل دی تھی۔” (یعنی ہمارے اساتذہ ہر بات کو مذہبی عینک سے دیکھتے ہیں اور پرکھتے ہیں)

ہمارے اساتذہ ہر بات کو مذہبی عینک سے دیکھتے ہیں اور پرکھتے ہیں

سقراط نے ٹیچر کے لیے دوسری شرط یہ لگائی کہ اسے “مہذب (Cultured)” ہونا چاہیئے۔ ہمارے سکولوں کے اساتذہ کی شخصیت کے تمام ظاہری لوازمات باوقار، صاف ستھرے، خوشگوار اور دلنشیں (Impressive) ہونے چاہیئے۔

اگر ہم منافقت سے کام نہ لیں اور پینٹ شرٹ، سوٹ ٹائی وغیرہ کو غیر اسلامی لباس قرار نہ دیں تو تو مرد اساتذہ پر سکول کے اندر کسی اور طرح کے لباس پر پابندی ہونی چاہیے ورنہ “ماجے گامے” اور ایک کلچرڈ استاد میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔

اسکول ایک خاص جگہ ہے، معاشرے کا اعلیٰ ترین علمی اور ثقافتی مقام ہے اس میں لمبے چوڑے، ڈھیلے ڈھالے قدیم زمیندارانہ غیر صنعتی ماحول کے عامیانہ لباس کو قومی جذبے اور حب الوطنی کے نام پر پہننا، آج کے ترقی یافتہ صنعتی دور کے ساتھ زیادتی ہے۔

پھر ہم دیکھتے بھی ہیں کہ بورڈنگ سکولز اور اعلی پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں مغربی لباس کی پابندی موجود بھی ہے۔ آج کام کی کوئی بھی جگہ ہو۔ سمارٹ لباس اس کا متقاضی ہے۔ مغربی لباس آج کے ترقی یافتہ دور کے ساتھ مطابقت رکھنے والا “یونیورسل لباس” ہے۔ قومی جذبے اور حب الوطنی کو تعلیم میں کوالٹی اور اپنے اندر اعلیٰ کردار پیدا کرکے دیکھا جائے۔

شلوار قمیض کے نام پر “چولے” پہن کر حب الوطنی کا مظاہرہ محض خودفریبی ہے اس کا مقصد تعلیمی اداروں کے ماحول کو تباہ کرنا تھا۔ پرانا زمانہ سست رو تھا۔ لہذا اس وقت کے لباس بھی سست رو مزاج کے غماز ہیں۔ آج کی دنیا تیز رفتار اور چستی کی متقاضی ہے۔ پرانے زمانے کے تہذیبی اور ثقافتی “Antiques” کو ہر جگہ اٹھائے پھرنا ضروری نہیں۔

کتاب : تعلیم اور ہماری قومی الجھنیں
مصنف : ارشد محمود

اس بارے میں آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔

عبیرہ فاطمہ

عبیرہ فاطمہ

تیزی سے بدلتی دنیا میں اپنے اصولوں پر قائم روح

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

SEDiNFO.NET ilmi Forum
Logo